صحیح بخاری

اجازت لینے کے بیان میں

سلام کے شروع ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6227

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ. فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ».

ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ورحمۃ اللہ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان اے ایمان والو ! تم اپنے ( خاص ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو ۔ پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہو تو بھی ان میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو ۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو

وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏لِلْحَسَنِ:‏‏‏‏ إِنَّ نِسَاءَ الْعَجَمِ يَكْشِفْنَ صُدُورَهُنَّ وَرُءُوسَهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اصْرِفْ بَصَرَكَ عَنْهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏يقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ سورة النور آية 30، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ قَتَادَةُ عَمَّا لَا يَحِلُّ لَهُمْ:‏‏‏‏ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ سورة النور آية 31، ‏‏‏‏‏‏خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ مِنَ النَّظَرِ إِلَى مَا نُهِيَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي النَّظَرِ إِلَى الَّتِي لَمْ تَحِضْ مِنَ النِّسَاءِ:‏‏‏‏ لَا يَصْلُحُ النَّظَرُ إِلَى شَيْءٍ مِنْهُنَّ مِمَّنْ يُشْتَهَى النَّظَرُ إِلَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ صَغِيرَةً، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ عَطَاءٌ النَّظَرَ إِلَى الْجَوَارِي الَّتِي يُبَعْنَ بِمَكَّةَ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ أَنْ يَشْتَرِيَ.

اور سعید بن ابی الحسن نے (اپنے بھائی) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں۔ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں سے کہہ دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے لیے جائز نہیں ہے (اس سے حفاظت کریں) اور آپ کہہ دیجئیے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگار ظاہر نہ ہونے دیں۔ «خائنة الأعين» سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیدا ہو سکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاء نے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں۔ ہاں اگر انہیں خریدنے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ (الحمدللہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہو چکے ہیں)۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان اے ایمان والو ! تم اپنے ( خاص ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو ۔ پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہو تو بھی ان میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو ۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو

حد یث نمبر - 6228

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ يَوْمَ النَّحْرِ خَلْفَهُ عَلَى عَجُزِ رَاحِلَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْفَضْلُ رَجُلًا وَضِيئًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ يُفْتِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ وَضِيئَةٌ تَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْلَفَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ بِذَقَنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَدَلَ وَجْهَهُ عَنِ النَّظَرِ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "نَعَمْ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن و جمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔ پھر اس عورت نے کہا: یا رسول اللہ! حج کے بارے میں اللہ کا جو اپنے بندوں پر فریضہ ہے وہ میرے والد پر لاگو ہوتا ہے، جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور سواری پر سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو ان کا حج ادا ہو جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ہو جائے گا۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان اے ایمان والو ! تم اپنے ( خاص ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو ۔ پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہو تو بھی ان میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو ۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو

حد یث نمبر - 6229

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "غَضُّ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَفُّ الْأَذَى، ‏‏‏‏‏‏وَرَدُّ السَّلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ".

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوعامر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ! فرمایا (غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے) نظر نیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

سلام کے بیان میں ، سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے

وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا‏‏‏‏.

اور اللہ پاک نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها‏» اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بڑھ کر اچھا جواب دو یا (کم از کم) اتنا ہی جواب دو۔

سلام کے بیان میں ، سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے

حد یث نمبر - 6230

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلِ:‏‏‏‏ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ إِذَا قَالَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَتَخَيَّرْ بَعْدُ مِنَ الْكَلَامِ مَا شَاءَ".

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم (ابتداء اسلام میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، سلام ہو جبرائیل پر، سلام ہو میکائیل پر، سلام ہو فلاں پر، پھر(ایک مرتبہ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ ہی سلام ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو «التحيات لله،‏‏‏‏ والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين‏.‏» الخ پڑھا کرے۔ کیونکہ جب وہ یہ دعا پڑھے گا تو آسمان و زمین کے ہر صالح بندے کو اس کی یہ دعا پہنچے گی۔ «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏» اس کے بعد اسے اختیار ہے جو دعا چاہے پڑھے۔

تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو پہلے سلام کرے

حد یث نمبر - 6231

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو پہلے سلام کرے۔

سوار پہلے پیدل کو سلام کرے

حد یث نمبر - 6232

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي زِيَادٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ ثَابِتًا مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".

ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ثابت سے سنا، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

چلنے والا پہلے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے

حد یث نمبر - 6233

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي زِيَادٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ثَابِتًا أَخْبَرَهُ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہیں ثابت نے خبر دی جو عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ہیں۔ اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور چھوٹی جماعت پہلے بڑی جماعت کو سلام کرے۔

کم عمر والا پہلے بڑی عمر والے کو سلام کرے

حد یث نمبر - 6234

وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ:‏‏‏‏ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ.

اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

سلام کو زیادہ رواج دینا

حد یث نمبر - 6235

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الشَّيْبَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ:‏‏‏‏ بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، ‏‏‏‏‏‏وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَصْرِ الضَّعِيفِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَوْنِ الْمَظْلُومِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَهَى عَنِ الشُّرْبِ فِي الْفِضَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَهَانَا عَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ رُكُوبِ الْمَيَاثِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالدِّيبَاجِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَسِّيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْإِسْتَبْرَقِ".

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا۔ بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کے جواب دینے کا۔ کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، افشاء سلام (سلام کا جواب دینے اور بکثرت سلام کرنے) کا، قسم (حق) کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا تھا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے ہمیں منع فرمایا تھا۔ میثر (ریشم کی زین) پر سوار ہونے سے، ریشم اور دیباج پہننے، قسی (ریشمی کپڑا) اور استبرق پہننے سے (منع فرمایا تھا)۔

پہچان ہو یا نہ ہو ہر ایک مسلمان کو سلام کرنا

حد یث نمبر - 6236

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَزِيدُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا سَأَل النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "تُطْعِمُ الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى مَنْ لَمْ تَعْرِفْ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے، ان سے عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام کی کون سی حالت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ (اللہ کی مخلوق کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔

پہچان ہو یا نہ ہو ہر ایک مسلمان کو سلام کرنا

حد یث نمبر - 6237

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏يَلْتَقِيَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ"، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ سُفْيَانُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی(مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق کاٹے کہ جب وہ ملیں تو یہ ایک طرف منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری طرف اور دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام پہلے کرے۔ اور سفیان نے کہا کہ انہوں نے یہ حدیث زہری سے تین مرتبہ سنی ہے۔

پردہ کی آیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 6238

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ :‏‏‏‏ أَنَّهُ كَانَ ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ مَقْدَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرًا حَيَاتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَعْلَمَ النَّاسِ بِشَأْنِ الْحِجَابِ حِينَ أُنْزِلَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ فِي مُبْتَنَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا عَرُوسًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا الْقَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصَابُوا مِنَ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجُوا وَبَقِيَ مِنْهُمْ رَهْطٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالُوا الْمُكْثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ وَخَرَجْتُ مَعَهُ كَيْ يَخْرُجُوا، ‏‏‏‏‏‏فَمَشَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى جَاءَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ظَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ لَمْ يَتَفَرَّقُوا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجَعْتُ مَعَهُ حَتَّى بَلَغَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَظَنَّ أَنْ قَدْ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُمْ قَدْ خَرَجُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأُنْزِلَ آيَةُ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا".

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا مجھ کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ (ہجرت کر کے) تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال تھی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے باقی دس سالوں میں آپ کی خدمت کی اور میں پردہ کے حکم کے متعلق سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ کب نازل ہوا تھا۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پردہ کے حکم کا نزول سب سے پہلے اس رات ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کے ساتھ پہلی خلوت کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دولہا تھے اور آپ نے صحابہ کو دعوت ولیمہ پر بلایا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ چلے گئے لیکن چند آدمی آپ کے پاس بیٹھے رہ گئے اور بہت دیر تک وہیں ٹھہرے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا گیا تاکہ وہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی کریم چلتے رہے اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتا رہا اور سمجھا کہ وہ لوگ اب چلے گئے ہیں۔ اس لیے واپس تشریف لائے اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آیا لیکن آپ جب زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوئے تو وہ لوگ ابھی بیٹھے ہوئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں گئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ وہاں سے لوٹ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹ گیا۔ جب آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی چوکھٹ تک پہنچے تو آپ نے سمجھا کہ وہ لوگ نکل چکے ہوں گے۔ پھر آپ لوٹ کر آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ لوٹ آیا تو واقعی وہ لوگ جا چکے تھے۔ پھر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا۔

پردہ کی آیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 6239

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبِي :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَ الْقَوْمُ فَطَعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقُومُوا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ قَامَ مَنْ قَامَ مِنَ الْقَوْمِ وَقَعَدَ بَقِيَّةُ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِيَدْخُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا فَانْطَلَقُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ فَأَلْقَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 53 الْآيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ فِيهِ مِنَ الْفِقْهِ أَنَّهُ لَمْ يَسْتَأْذِنْهُمْ حِينَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَرَجَ وَفِيهِ أَنَّهُ تَهَيَّأَ لِلْقِيَامِ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَقُومُوا.

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ان سے ابومجلز نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو لوگ اندر آئے اور کھانا کھایا پھر بیٹھ کے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ کھڑے نہیں ہوئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو کھڑے ہو گئے۔ آپ کے کھڑے ہونے پر قوم کے جن لوگوں کو کھڑا ہونا تھا وہ بھی کھڑے ہو گئے لیکن بعض لوگ اب بھی بیٹھے رہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے (آپ واپس ہو گئے) اور پھر جب وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے اور چلے گئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي‏» اے ایمان والو! نبی کے گھر میں نہ داخل ہو۔ آخر تک۔

پردہ کی آیت کے بارے میں

حد یث نمبر - 6240

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ احْجُبْ نِسَاءَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمْ يَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجْنَ لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي الْمَجْلِسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَرَفْتُكِ يَا سَوْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ الْحِجَابِ".

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب نے خبر دی، مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کا پردہ کرائیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا اور ازواج مطہرات رفع حاجت کے لیے صرف رات ہی کے وقت نکلتی تھیں(اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں تھے) ایک مرتبہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا باہر گئی ہوئی تھیں۔ ان کا قد لمبا تھا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا۔ اس وقت وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا سودہ میں نے آپ کو پہچان لیا یہ انہوں نے اس لیے کہا کیونکہ وہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بڑے متمنی تھے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیت نازل کی۔

اذن لینے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ نظر نہ پڑے

حد یث نمبر - 6241

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ :‏‏‏‏ حَفِظْتُهُ كَمَا أَنَّكَ هَا هُنَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرًى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ تَنْظُرُ، ‏‏‏‏‏‏لَطَعَنْتُ بِهِ فِي عَيْنِكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے بیان کیا (سفیان نے کہا کہ) میں نے یہ حدیث زہری سے سن کر اس طرح یاد کی ہے کہ جیسے تو اس وقت یہاں موجود ہو اور ان سے سہل بن سعد نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حجرہ میں سوراخ سے دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ایک کنگھا تھا جس سے آپ سر مبارک کھجا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا(اندر داخل ہونے سے پہلے) اجازت مانگنا تو ہے ہی اس لیے کہ (اندر کی کوئی ذاتی چیز) نہ دیکھی جائے۔

اذن لینے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ نظر نہ پڑے

حد یث نمبر - 6242

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ :‏‏‏‏ "أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ مِنْ بَعْضِ حُجَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ أَوْ بِمَشَاقِصَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَخْتِلُ الرَّجُلَ لِيَطْعُنَهُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی بکر نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حجرہ میں جھانک کر دیکھنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف تیر کا پھل یا بہت سے پھل لے کر بڑھے، گویا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں ان صاحب کی طرف اس طرح چپکے چپکے تشریف لائے۔

شرمگاہ کے علاوہ دوسرے اعضاء کے زنا کا بیان

حد یث نمبر - 6243

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَرَ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِنْ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَزِنَا الْعَيْنِ:‏‏‏‏ النَّظَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَزِنَا اللِّسَانِ:‏‏‏‏ الْمَنْطِقُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّفْسُ:‏‏‏‏ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَرْجُ:‏‏‏‏ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ".

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے مشابہ میں نے اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ مراد ہیں)۔ مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے کوئی چیز صغیرہ گناہوں سے مشابہ اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں دیکھی جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معاملہ میں زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ لامحالہ دوچار ہو گا پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، دل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کرتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔

سلام اور اجازت تین مرتبہ ہونی چاہئے

حد یث نمبر - 6244

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا".

ہم سے اسحٰق نے بیان کیا کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن مثنی نے خبر دی ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو سلام کرتے (اور جواب نہ ملتا) تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو (زیادہ سے زیادہ) تین مرتبہ اسے دہراتے۔

سلام اور اجازت تین مرتبہ ہونی چاہئے

حد یث نمبر - 6245

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏إِذْ جَاءَ أَبُو مُوسَى كَأَنَّهُ مَذْعُورٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَكَ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ اسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَرْجِعْ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَتُقِيمَنَّ عَلَيْهِ بِبَيِّنَةٍ أَمِنْكُمْ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا يَقُومُ مَعَكَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُ عُمَرَ:‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏بِهَذَا.

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ان سے بسر بن سعید اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا، اس لیے واپس چلا آیا (عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا) تو انہوں نے دریافت کیا کہ (اندر آنے میں) کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت چاہے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ! تمہیں اس حدیث کی صحت کے لیے کوئی گواہ لانا ہو گا۔ (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مجلس والوں سے پوچھا) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہو؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ (اس کی گواہی دینے کے سوا) جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے کوئی اور نہیں کھڑا ہو گا۔ ابوسعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔ اور ابن مبارک نے بیان کیا کہ مجھ کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے بسر بن سعید سے، کہا میں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے سنا پھر یہی حدیث نقل کی۔

اگر کوئی شخص بلانے پر آیا ہو تو کیا اسے بھی اندر داخل ہونے کے لیے اذن لینا چاہئے یا نہیں

قَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ إِذْنُهُ"

سعید نے قتادہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابورافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی (بلانا) اس کے لیے اجازت ہے۔

اگر کوئی شخص بلانے پر آیا ہو تو کیا اسے بھی اندر داخل ہونے کے لیے اذن لینا چاہئے یا نہیں

حد یث نمبر - 6246

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، ‏‏‏‏‏‏وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَامُجَاهِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَبَا هِرٍّ:‏‏‏‏ الْحَقْ أَهْلَ الصُّفَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَادْعُهُمْ إِلَيَّ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَأْذَنُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأُذِنَ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلُوا.

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو مجاہد نے خبر دی، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے گھر میں) داخل ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑے پیالے میں دودھ پایا تو فرمایا ابوہریرہ! اہل صفہ کے پاس جا اور انہیں میرے پاس بلا لا۔ میں ان کے پاس آیا اور انہیں بلا لایا۔ وہ آئے اور (اندر آنے کی) اجازت چاہی پھر جب اجازت دی گئی تو داخل ہوئے۔

بچوں کو سلام کرنا

حد یث نمبر - 6247

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَيَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ "أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".

ہم سے علی بن الجعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سیار نے انہوں نے ثابت بنانی سے روایت کی، انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو

حد یث نمبر - 6248

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا نَفْرَحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَلِمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تُرْسِلُ إِلَى بُضَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ:‏‏‏‏ نَخْلٍ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ السِّلْقِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَطْرَحُهُ فِي قِدْرٍ وَتُكَرْكِرُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ انْصَرَفْنَا وَنُسَلِّمُ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَتُقَدِّمُهُ إِلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَفْرَحُ مِنْ أَجْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ".

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لیے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔

مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو

حد یث نمبر - 6249

حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَائِشَةُ هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلاَمَ». قَالَتْ قُلْتُ وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، تَرَى مَا لاَ نَرَى. تُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. تَابَعَهُ شُعَيْبٌ. وَقَالَ يُونُسُ وَالنُّعْمَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ وَبَرَكَاتُهُ.

ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی انہیں زہری نے انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! یہ جبرائیل ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں بیان کیا کہ میں نے عرض کیا «وعليه السلام ورحمة الله» آپ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے ام المؤمنین کا اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا۔ معمر کے ساتھ اس حدیث کو شعیب اور یونس اور نعمان نے بھی زہری سے روایت کیا ہے یونس اور نعمان کی روایتوں میں «وبركاته‏.» کا لفظ زیادہ ہے۔

اگر گھر والا پوچھے کہ کون ہے اس کے جواب میں کوئی کہے کہ میں ہوں اور نام نہ لے

حد یث نمبر - 6250

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَى أَبِي، ‏‏‏‏‏‏فَدَقَقْتُ الْبَابَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ ذَا"، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَنَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَا، ‏‏‏‏‏‏كَأَنَّهُ كَرِهَهَا".

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس قرض کے بارے میں حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں؟ میں نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں، میں جیسے آپ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا۔

جواب میں صرف علیک السلام کہنا

وَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ رَدَّ الْمَلَائِكَةُ عَلَى آدَمَ:‏‏‏‏ السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ.

اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ وعلیہ السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ اور ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو جواب دیا «السلام عليك ورحمة الله‏"‏‏» سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت۔

جواب میں صرف علیک السلام کہنا

حد یث نمبر - 6251

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَارْجِعْ فَصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا:‏‏‏‏ عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ فِي الْأَخِيرِ:‏‏‏‏ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا،‏‏‏‏

ہم سے اسحٰق بن منصور نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممسجد کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور پھر حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وعلیک السلام واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور نماز پڑھی۔ پھر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئے اور سلام کیا آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔ واپس جاؤ پھر نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور اس نے پھر نماز پڑھی۔ پھر واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا وعلیکم السلام۔ واپس جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ان صاحب نے دوسری مرتبہ، یا اس کے بعد، عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے نماز پڑھنی سکھا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہو، اس کے بعد قرآن مجید میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو اور جب رکوع کی حالت میں برابر ہو جاؤ تو سر اٹھاؤ۔ جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر سجدہ میں جاؤ، جب سجدہ پوری طرح کر لو تو سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ۔ یہی عمل اپنی ہر رکعت میں کرو۔ اور ابواسامہ راوی نے دوسرے سجدہ کے بعد یوں کہا کہ پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سید ھا کھڑا ہو جا۔

جواب میں صرف علیک السلام کہنا

حد یث نمبر - 6252

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا".

ہم سے ابن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سر سجدہ سے اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔

اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص نے تجھ کو سلام کہا ہے تو وہ کیا کہے

حد یث نمبر - 6253

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَامِرًا ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهَا:‏‏‏‏ "إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ.

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔

ایسی مجلس والوں کو سلام کرنا جس میں مسلمان اور مشرک سب شامل ہوں

حد یث نمبر - 6254

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، ‏‏‏‏‏‏خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا الْمَرْءُ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ:‏‏‏‏ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْرِكُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْ سَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔ سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئیے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔

جس نے گناہ کرنے والے کو سلام نہیں کیا اور اس وقت تک اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جب تک اس کا توبہ کرنا ظاہر نہیں ہو گیا اور کتنے دنوں تک گنہگار کا توبہ کرنا ظاہر ہوتا ہے ؟

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو لاَ تُسَلِّمُوا عَلَى شَرَبَةِ الْخَمْرِ.

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ شراب پینے والوں کو سلام نہ کرو۔

جس نے گناہ کرنے والے کو سلام نہیں کیا اور اس وقت تک اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جب تک اس کا توبہ کرنا ظاہر نہیں ہو گیا اور کتنے دنوں تک گنہگار کا توبہ کرنا ظاہر ہوتا ہے ؟

حد یث نمبر - 6255

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏"وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا ؟ حَتَّى كَمَلَتْ خَمْسُونَ لَيْلَةً، ‏‏‏‏‏‏وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى الْفَجْرَ".

ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا اور یہ اندازہ لگاتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب سلام میں ہونٹ مبارک ہلائے یا نہیں، آخر پچاس دن گزر گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کے قبول کئے جانے کا نماز فجر کے بعد اعلان کیا۔

ذمیوں کے سلام کا جواب کس طرح دیا جائے ؟

حد یث نمبر - 6256

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ السَّامُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ:‏‏‏‏ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَقَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ «السام عليك‏.‏»(تمہیں موت آئے) میں ان کی بات سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا «عليكم السام واللعنة‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ صبر سے کام لے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔

ذمیوں کے سلام کا جواب کس طرح دیا جائے ؟

حد یث نمبر - 6257

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمُ الْيَهُودُ فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمُ:‏‏‏‏ السَّامُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ:‏‏‏‏ وَعَلَيْكَ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں یہودی سلام کریں اور اگر ان میں سے کوئی «السام عليك‏.‏» کہے تو تم اس کے جواب میں صرف «وعليك» (اور تمہیں بھی) کہہ دیا کرو۔

ذمیوں کے سلام کا جواب کس طرح دیا جائے ؟

حد یث نمبر - 6258

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا:‏‏‏‏ وَعَلَيْكُمْ".

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف «وعليكم» کہو۔

جس نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے ایسے شخص کا مکتوب پکڑ لیا جس میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات لکھی گئی ہو تو یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6259

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بُهْلُولٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏والزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّنَا فَارِسٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا مَعِي كِتَابٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنَخْنَا بِهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ صَاحِبَايَ:‏‏‏‏ مَا نَرَى كِتَابًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏أَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْرَجَتِ الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا حَمَلَكَ يَا حَاطِبُ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا غَيَّرْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَدَّلْتُ، ‏‏‏‏‏‏أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ هُنَاكَ إِلَّا وَلَهُ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "صَدَقَ فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.

ہم سے یوسف بن بہلول نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر بن عوام اور ابومرثد غنوی کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے (اسے لے آؤ)۔ بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پا لیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی (جہاں)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خط تو نظر آتا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوں گا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ حاطب تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد (خط بھیجنے سے) صرف یہ تھا کہ (قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح)میرا ان لوگوں پر احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے (ان سے) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کرائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ کہو بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود فرمایا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔

اہل کتاب کو کس طرح خط لکھا جائے

حد یث نمبر - 6260

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فِيهِ:‏‏‏‏ "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ".

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ لوگ شام تجارت کی غرض سے گئے تھے سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا خط میں یہ لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ ہرقل عظیم روم کی طرف، سلام ہو ان پر جنہوں نے ہدایت کی اتباع کی۔ امابعد!

خط کس کے نام سے شروع کیا جائے

حد یث نمبر - 6261

وَقَالَ اللَّيْثُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَخَذَ خَشَبَةً، ‏‏‏‏‏‏فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ.

لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیع نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک لٹھا لیا اور اس میں سوراخ کر کے ایک ہزار دینار اور خط رکھ دیا وہ ان کی طرف سے ان کے ساتھی (قرض خواہ) کی طرف تھا اور عمر بن ابی سلمہ نے بیان کیا کہ ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے لکڑی کے ایک لٹھے میں سوراخ کیا اور مال اس کے اندر رکھ دیا اور ان کے پاس ایک خط لکھا، فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے سردار کو لینے کے لیے اٹھو

حد یث نمبر - 6262

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَهْلَ قُرَيْظَةَ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ فَقَالَ:‏‏‏‏ "قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ خَيْرِكُمْ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ حَكَمْتَ بِمَا حَكَمَ بِهِ الْمَلِكُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ أَفْهَمَنِي بَعْضُ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ مِنْ قَوْلِ أَبِي سَعِيدٍ إِلَى حُكْمِكَ.

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے سعد بن ابراہیم نے ان سے ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ قریظہ کے یہودی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث بنانے پر تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا جب وہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سردار کے لینے کو اٹھو یا یوں فرمایا کہ اپنے میں سب سے بہتر کو لینے کے لیے اٹھو۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے لوگ تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر (قلعہ سے) اتر آئے ہیں (اب تم کیا فیصلہ کرتے ہو)۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو جنگ کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے وہی فیصلہ فرمایا جس فیصلہ کو فرشتہ لے کر آیا تھا۔ ابوعبداللہ (مصنف) نے بیان کیا کہ مجھے میرے بعض اصحاب نے ابوالولید کے واسطہ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ کا قول ( «على» کے بجائے بصلہ «إلى حكمك‏.‏» نقل کیا ہے۔

مصافحہ کا بیان

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏ عَلَّمَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھلایا تو میری دونوں ہتھیلیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان تھیں اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے طلحہ بن عبیداللہ اٹھ کر بڑی تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور (توبہ قبول ہونے پر) مجھے مبارک باد دی۔

مصافحہ کا بیان

حد یث نمبر - 6263

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَنَسٍ :‏‏‏‏ "أَكَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ".

ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا مصافحہ کا دستور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں تھا؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں ضرور تھا۔

مصافحہ کا بیان

حد یث نمبر - 6264

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ".

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حیوہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابوعقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔

دونوں ہاتھ پکڑنا

وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ"

اور حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔

دونوں ہاتھ پکڑنا

حد یث نمبر - 6265

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَيْفٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُابْنَ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ:‏‏‏‏ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قُبِضَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا السَّلَامُ"، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن بخرہ ابومعمر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا (اس طرح سکھایا) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات،‏‏‏‏ السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين،‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حیات تھے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو ہم (خطاب کا صیغہ کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے «السلام‏.‏ على النبي» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔

معانقہ یعنی گلے ملنے کے بیان میں اور ایک آدمی کا دوسرے سے پوچھنا کیوں آج صبح آپ کا مزاج کیسا ہے

حد یث نمبر - 6266

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَلِيًّا يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ:‏‏‏‏ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا حَسَنٍ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا"، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ بِيَدِهِ الْعَبَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا تَرَاهُ أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ الثَّلَاثِ عَبْدُ الْعَصَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيُتَوَفَّى فِي وَجَعِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَعْرِفُ فِي وُجُوهِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَاذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْأَلَهُ فِيمَنْ يَكُونُ الْأَمْرُ ؟ فَإِنْ كَانَ فِينَا، ‏‏‏‏‏‏عَلِمْنَا ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا أَمَرْنَاهُ فَأَوْصَى بِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَلِيٌّ:‏‏‏‏ "وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَمْنَعُنَا لَا يُعْطِينَاهَا النَّاسُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَا أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا".

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب نے خبر دی اور ان کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (مرض الموت میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: اے ابوالحسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کیسی گزاری؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہا ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ عباس رضی اللہ عنہ نے پکڑ کر کہا۔ کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے نہیں ہو۔ (واللہ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پا جائیں گے۔ میں بنی عبدالمطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں، اس لیے ہمارے ساتھ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ تاکہ پوچھا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی تو ہم عرض کریں گے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کی درخواست کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں کبھی نہیں دیں گے میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو۔

کوئی بلائے تو جواب میں لفظ «لبيك» ( حاضر ) اور «سعديك» ( آپ کی خدمت کے لیے مستعد ) کہنا

حد یث نمبر - 6267

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا رَدِيفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مِثْلَهُ ثَلَاثًا"هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا"، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَ سَاعَةً فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ؟ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے معاذ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! میں نے کہا «لبيك وسعديك‏.‏» (حاضر ہوں)۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ مجھے اسی طرح مخاطب کیا اس کے بعد فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی جواب دیا) کہ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا کہ اے معاذ! میں نے عرض کی «لبيك وسعديك‏.‏» فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ جب وہ یہ کر لیں تو اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ یہ کہ انہیں عذاب نہ دے۔ 

 

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذٍ ، ‏‏‏‏‏‏بِهَذَا.

ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حدیث مذکورہ بالا بیان کی۔

کوئی بلائے تو جواب میں لفظ «لبيك» ( حاضر ) اور «سعديك» ( آپ کی خدمت کے لیے مستعد ) کہنا

حد یث نمبر - 6268

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَاللَّهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا أَبَا ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ ثَلَاثٌ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ:‏‏‏‏ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا"، ‏‏‏‏‏‏وَأَرَانَا بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "يَا أَبَا ذَرٍّ"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَكْثَرُونَ هُمُ الْأَقَلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَنْ قَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا وَهَكَذَا"، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِي:‏‏‏‏ "مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ"، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبْرَحْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَكُثْتُ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ صَوْتًا خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَ الْجَنَّةَ"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ زَنَى، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ سَرَقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَإِنْ زَنَى، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ سَرَقَ"، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْمَشُ :‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَأَبُو شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ :‏‏‏‏ يَمْكُثُ عِنْدِي فَوْقَ ثَلَاثٍ.

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گزر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! میں نے عرض کیا «لبيك وسعديك‏.‏» یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی نہ پیش آ گئی ہو۔ اس لیے میں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آیا کہ یہاں سے نہ ہٹنا۔ چنانچہ میں وہیں رک گیا (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی۔ میں نے آواز سنی تھی اور مجھے خطرہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی پریشانی نہ پیش آ جائے پھر مجھے آپ کا ارشاد یاد آیا اس لیے میں یہیں ٹھہر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ میرے پاس آئے تھے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو۔ (اعمش نے بیان کیا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس حدیث کے راوی ابودرداء رضی اللہ عنہ ہیں؟ زید نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث مجھ سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کی تھی۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوصالح نے حدیث بیان کی اور ان سے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اسی طرح بیان کیا اور ابوشہاب نے اعمش سے بیان کیا۔

کوئی شخص کسی دوسرے بیٹھے ہوئے مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے

حد یث نمبر - 6269

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ".

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھ جائے۔

اللہ پاک کا سورۃ المجادلہ میں فرمانا کہ اے مسلمانو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کشادگی کر لو تو کشادگی کرو ، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی کرے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو

حد یث نمبر - 6270

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ"نَهَى أَنْ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا"، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَجْلِسَ مَكَانَهُ.

ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ عمری نے، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھایا جائے تاکہ دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔

جو اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر مجلس یا گھر میں کھڑا ہوا یا کھڑے ہونے کے لیے ارادہ کیا تاکہ دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو جائیں تو یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6271

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏دَعَا النَّاسَ طَعِمُوا ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقُومُوا فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ قَامَ مَنْ قَامَ مَعَهُ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ ثَلَاثَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِيَدْخُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا فَانْطَلَقُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدِ انْطَلَقُوا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ فَأَرْخَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 53.

ہم سے حسن بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، وہ ابومجلز (حق بن حمید) سے بیان کرتے تھے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو لوگوں کو (دعوت ولیمہ پر) بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں۔ لیکن لوگ (پھر بھی بیٹھے ہوئے تھے) پھر بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے صحابہ کھڑے ہو گئے لیکن تین آدمی اب بھی باقی رہ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر جانے کے لیے تشریف لائے لیکن وہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں آیا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ وہ (تین آدمی) بھی جا چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم‏» اے ایمان والو! نبی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے۔ ارشاد ہوا «إن ذلكم كان عند الله عظيما‏» تک۔

ہاتھ سے «احتباء» کرنا اور اس کو «قرفصاء» کہتے ہیں

حد یث نمبر - 6272

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي غَالِبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ مُحْتَبِيًا بِيَدِهِ هَكَذَا".

ہم سے محمد بن ابی غالب نے بیان کیا، کہا ہم کو ابراہیم بن المنذر حزامی نے خبر دی، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحن کعبہ میں دیکھا کہ آپ سرین پر بیٹھے ہوئے دونوں رانیں شکم مبارک سے ملائے ہوئے ہاتھوں سے پنڈلی پکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔

اپنے ساتھیوں کے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھنا

قَالَ خَبَّابٌ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ.

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے عرض کیا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے! (یہ سن کر) آپ سیدھے ہو بیٹھے۔

اپنے ساتھیوں کے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھنا

حد یث نمبر - 6273

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟"، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ایاس جریری نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔

اپنے ساتھیوں کے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھنا

حد یث نمبر - 6274

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِشْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ"، ‏‏‏‏‏‏فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا:‏‏‏‏ لَيْتَهُ سَكَتَ.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے اسی طرح مثال بیان کیا، (اور یہ بھی بیان کیا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ہاں اور جھوٹی بات بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اتنی مرتبہ باربار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا، کاش آپ خاموش ہو جاتے۔

جو کسی ضرورت یا کسی غرض کی وجہ سے تیز تیز چلے

حد یث نمبر - 6275

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَهُ قَالَ:‏‏‏‏ "صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْرَعَ ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ".

ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ چل کر آپ گھر میں داخل ہو گئے۔

چارپائی یا تخت کا بیان

حد یث نمبر - 6276

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الضُّحَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَسْطَ السَّرِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ تَكُونُ لِي الْحَاجَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكْرَهُ أَنْ أَقُومَ فَأَسْتَقْبِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْسَلُّ انْسِلَالًا".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تخت کے وسط میں نماز پڑھتے تھے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قبلہ کے درمیان لیٹی رہتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی لیکن مجھ کو کھڑے ہو کر آپ کے سامنے آنا برا معلوم ہوتا۔ البتہ آپ کی طرف رخ کر کے میں آہستہ سے کھسک جاتی تھی۔

کسی کے لیے گاؤ تکیہ لگانا یا گدا بچھانا ( جائز ہے )

حد یث نمبر - 6277

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو الْمَلِيحِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ أَبِيكَ زَيْدٍ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيَّ فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ "أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَمْسًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَبْعًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تِسْعًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِحْدَى عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏شَطْرَ الدَّهْرِ:‏‏‏‏ صِيَامُ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِفْطَارُ يَوْمٍ".

ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عون نے بیان کیا، ان سے خالد (خالد بن عبداللہ طحان) نے بیان کیا، ان سے خالد (خالد حذاء) نے، ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوالملیح عامر بن زید نے خبر دی، انہوں نے (ابوقلابہ) کو (خطاب کر کے) کہا کہ میں تمہارے والد زید کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے روزے کا ذکر کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے میں نے آپ کے لیے چمڑے کا ایک گدا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی بچھا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھے اور گدا میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے درمیان ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے ہر مہینے میں تین دن کے (روزے) کافی نہیں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر پانچ دن رکھا کر۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمایا سات دن۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمایا نو دن۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمایا گیارہ دن۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرمایا داؤد علیہ السلام کے روزے سے زیادہ کوئی روزہ نہیں ہے۔ زندگی کے نصف ایام، ایک دن کا روزہ اور ایک دن بغیر روزہ کے رہنا۔

کسی کے لیے گاؤ تکیہ لگانا یا گدا بچھانا ( جائز ہے )

حد یث نمبر - 6278

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُغِيرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَدِمَ الشَّأْمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُغِيرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبَ عَلْقَمَةُ إِلَى الشَّأْمِ فَأَتَى الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي كَانَ لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ:‏‏‏‏ يَعْنِي حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ كَانَ فِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّيْطَانِ:‏‏‏‏ يَعْنِي عَمَّارًا، ‏‏‏‏‏‏أَوَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّوَاكِ وَالْوِسَادِ:‏‏‏‏ يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے اور ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ ملک شام گئے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ دعا کی اے اللہ! مجھے ایک ہم نشین عطا فرما۔ چنانچہ وہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی مجلس میں جا بیٹھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ کہا کہ اہل کوفہ سے، پوچھا کیا تمہارے یہاں (نفاق اور منافقین کے)بھیدوں کے جاننے والے وہ صحابی نہیں ہیں جن کے سوا کوئی اور ان سے واقف نہیں ہے؟ ان کا اشارہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں (یا یوں کہا کہ) تمہارے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دی تھی؟ اشارہ عمار رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں مسواک اور گدے والے نہیں ہیں؟ ان کا اشارہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ «والليل إذا يغشى‏» کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ «والذكر والأنثى‏» پڑھتے تھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ لوگ کوفہ والے اپنے مسلسل عمل سے قریب تھا کہ مجھے شبہ میں ڈال دیتے حالانکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود اسے سنا تھا۔

جمعہ کے بعد قیلولہ کرنا

حد یث نمبر - 6279

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا نَقِيلُ وَنَتَغَدَّى بَعْدَ الْجُمُعَةِ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔

مسجد میں بھی قیلولہ کرنا جائز ہے

حد یث نمبر - 6280

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي تُرَابٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ بِهِ إِذَا دُعِيَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ:‏‏‏‏ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ؟ فَجَاءَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "قُمْ أَبَا تُرَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قُمْ أَبَا تُرَابٍ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ابوتراب سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاطمہ علیہا السلام کے گھر تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے (اور شوہر) کہاں گئے ہیں؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور میرے یہاں (گھر میں) قیلولہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور گرد آلود ہو گئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے، ابوتراب! (مٹی والے) اٹھو، ابوتراب! اٹھو۔

اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6281

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثُمَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِطَعًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِذَا نَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَتْ مِنْ عَرَقِهِ وَشَعَرِهِ فَجَمَعَتْهُ فِي قَارُورَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَمَعَتْهُ فِي سُكٍّ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ الْوَفَاةُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْصَى إِلَيَّ أَنْ يُجْعَلَ فِي حَنُوطِهِ مِنْ ذَلِكَ السُّكِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجُعِلَ فِي حَنُوطِهِ.

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ (ان کی والدہ) ام سلیم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کا فرش بچھا دیتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں اسی پر قیلولہ کر لیتے تھے۔ بیان کیا پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے (اور بیدار ہوئے) تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور (جھڑے ہوئے) آپ کے بال لے لیے اور (پسینہ کو) ایک شیشی میں جمع کیا اور پھر«سك» (ایک خوشبو) میں اسے ملا لیا۔ بیان کیا ہے کہ پھر جب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس «سك» (جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ملا ہوا تھا) میں سے ان کے حنوط میں ملا دیا جائے۔ بیان کیا ہے کہ پھر ان کے حنوط میں اسے ملایا گیا۔

اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6282

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏شَكَّ إِسْحَاقُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ زَمَانَ مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ.

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے۔ عبداللہ بن ابی طلحہ نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء تشریف لے جاتے تھے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر بھی جاتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے (خواب میں) پیش کئے گئے، جو اس سمندر کے اوپر (کشتیوں میں) سوار ہوں گے (جنت میں وہ ایسے نظر آئے) جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں، یا بیان کیا کہ بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ اسحاق کو ان لفظوں میں ذرا شبہ تھا (ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تحت پر ہوتے ہیں یا مثل بادشاہوں کے تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس گروہ کے سب سے پہلے لوگوں میں ہو گی چنانچہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے(معاویہ رضی اللہ عنہ کی شام پر گورنری کے زمانہ میں) سمندری سفر کیا اور خشکی پر اترنے کے بعد اپنی سواری سے گر پڑیں اور وفات پا گئیں۔

اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6283

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏شَكَّ إِسْحَاقُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ زَمَانَ مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ.

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے۔ عبداللہ بن ابی طلحہ نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء تشریف لے جاتے تھے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر بھی جاتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے (خواب میں) پیش کئے گئے، جو اس سمندر کے اوپر (کشتیوں میں) سوار ہوں گے (جنت میں وہ ایسے نظر آئے) جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں، یا بیان کیا کہ بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ اسحاق کو ان لفظوں میں ذرا شبہ تھا (ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو اس سمندر کے اوپر سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تحت پر ہوتے ہیں یا مثل بادشاہوں کے تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس گروہ کے سب سے پہلے لوگوں میں ہو گی چنانچہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے(معاویہ رضی اللہ عنہ کی شام پر گورنری کے زمانہ میں) سمندری سفر کیا اور خشکی پر اترنے کے بعد اپنی سواری سے گر پڑیں اور وفات پا گئیں۔

آسانی کے ساتھ آدمی جس طرح بیٹھ سکے بیٹھ سکتا ہے

حد یث نمبر - 6284

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ بَيْعَتَيْنِ:‏‏‏‏ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ لَيْسَ عَلَى فَرْجِ الْإِنْسَانِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُلَامَسَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَابَذَةِ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُدَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ .

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے اور دو طرح کی خرید و فروخت سے منع فرمایا تھا۔ اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں اس طرح احتباء کرنے سے کہ انسان کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو اور ملامست اور منابذت سے۔ اس روایت کی متابعت معمر، محمد بن ابی حفصہ اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے کی ہے۔

جس نے لوگوں کے سامنے سرگوشی کی اور جس نے اپنے ساتھی کا راز نہیں بتایا پھر جب وہ انتقال کر گیا تو بتایا یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6285

حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا فِرَاسٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ جَمِيعًا لَمْ تُغَادَرْ مِنَّا وَاحِدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَمْشِي لَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَّهَا فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى حُزْنَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هِيَ تَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَنَا مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّرِّ مِنْ بَيْنِنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَمَّا سَارَّكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَ قُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏لَمَّا أَخْبَرْتِنِي. قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏"فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ عَارَضَنِي بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا فَاطِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح نے، کہا ہم سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے مسروق نے کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ تمام ازواج مطہرات (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی! مرحبا! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انہیں بٹھایا۔ اس کے بعد آہستہ سے ان سے کچھ کہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز نہیں کھول سکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میرا جو حق آپ پر ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بتا سکتی ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے سال میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے، اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے ایک اچھا آگے جانے والا ہوں بیان کیا کہ اس وقت میرا رونا جو آپ نے دیکھا تھا اس کی وجہ یہی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا فاطمہ بیٹی! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ) اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔

جس نے لوگوں کے سامنے سرگوشی کی اور جس نے اپنے ساتھی کا راز نہیں بتایا پھر جب وہ انتقال کر گیا تو بتایا یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 6286

حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا فِرَاسٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ جَمِيعًا لَمْ تُغَادَرْ مِنَّا وَاحِدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَمْشِي لَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَى مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَّهَا فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى حُزْنَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هِيَ تَضْحَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَنَا مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّرِّ مِنْ بَيْنِنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَمَّا سَارَّكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَ قُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏لَمَّا أَخْبَرْتِنِي. قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏"فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ عَارَضَنِي بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا فَاطِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح نے، کہا ہم سے فراس بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے مسروق نے کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ تمام ازواج مطہرات (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، کوئی وہاں سے نہیں ہٹا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہوئی آئیں۔ اللہ کی قسم! ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے الگ نہیں تھی (بلکہ بہت ہی مشابہ تھی) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو خوش آمدید کہا۔ فرمایا بیٹی! مرحبا! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف انہیں بٹھایا۔ اس کے بعد آہستہ سے ان سے کچھ کہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ رونے لگیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا غم دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی اس پر وہ ہنسنے لگیں۔ تمام ازواج میں سے میں نے ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں صرف آپ کو سرگوشی کی خصوصیت بخشی۔ پھر آپ رونے لگیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے کان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز نہیں کھول سکتی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میرا جو حق آپ پر ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے وہ بات بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بتا سکتی ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پہلی سرگوشی کی تھی تو فرمایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے سال میں ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال مجھ سے انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے، اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے ایک اچھا آگے جانے والا ہوں بیان کیا کہ اس وقت میرا رونا جو آپ نے دیکھا تھا اس کی وجہ یہی تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پریشانی دیکھی تو آپ نے دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی، فرمایا فاطمہ بیٹی! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہ) اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔

چت لیٹنے کا بیان

حد یث نمبر - 6287

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبَّادُ بْنُ تَمِيمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ مُسْتَلْقِيًا وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عباد بن تمیم نے خبر دی، ان سے ان کے چچا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں چت لیٹے دیکھا آپ ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔

کسی جگہ صرف تین آدمی ہوں تو ایک کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں

وَقَوْلُهُ تَعَالَى: ‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلاَ تَتَنَاجَوْا بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَةِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى‏‏‏‏. إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ‏‏‏‏

اور اللہ پاک نے (سورۃ قد سمع اللہ میں) فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا تناجيتم فلا تتناجوا بالإثم والعدوان ومعصية الرسول وتناجوا بالبر والتقوى‏» مسلمانو! جب تم سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم اور پیغمبر کی نافرمانی پر سرگوشی نہ کیا کرو بلکہ نیکی اور پرہیزگاری پر آخر آیت «والله خبير بما تعملون‏» تک۔

 

وَقَوْلُهُ: ‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ‏‏‏‏.

اور اللہ نے (اس سورت میں) مزید فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا ناجيتم الرسول فقدموا بين يدي نجواكم صدقة ذلك خير لكم وأطهر فإن لم تجدوا فإن الله غفور رحيم» مسلمانو! جب تم پیغمبر سے سرگوشی کرو تو اس سے پہلے کچھ صدقہ نکالا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ ہے اگر تم کو خیرات کرنے کے لیے کچھ نہ ملے تو خیر اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ آخر آیت «والله خبير بما تعملون» تک۔ (سورۃ المجادلہ: 12، 13)

کسی جگہ صرف تین آدمی ہوں تو ایک کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں

حد یث نمبر - 6288

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تین آدمی ساتھ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آپس میں کانا پھوسی (سرگوشی) نہ کریں۔

راز چھپانا

حد یث نمبر - 6289

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَسَرَّ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرًّا فَمَا أَخْبَرْتُ بِهِ أَحَدًا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَأَلَتْنِي أُمُّ سُلَيْمٍ فَمَا أَخْبَرْتُهَا بِهِ".

ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک راز کی بات کہی تھی اور میں نے وہ راز کسی کو نہیں بتایا(ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا لیکن میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔

جب تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کانا پھوسی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے

حد یث نمبر - 6290

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَتَنَاجَى رَجُلَانِ دُونَ الْآخَرِ حَتَّى تَخْتَلِطُوا بِالنَّاسِ أَجْلَ أَنْ يُحْزِنَهُ".

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تین آدمی ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر تم آپس میں کانا پھوسی (سرگوشی) نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ لوگوں کو رنج ہو گا البتہ اگر دوسرے آدمی بھی ہوں تو مضائقہ نہیں۔

جب تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کانا پھوسی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے

حد یث نمبر - 6291

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَقِيقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قِسْمَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي مَلَإٍ فَسَارَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ تھی میں نے کہا کہ ہاں! اللہ کی قسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا۔ چنانچہ میں گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں چپکے سے یہ بات کہی تو آپ غصہ ہو گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا پھر آپ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (پس میں بھی صبر کروں گا)۔

دیر تک سرگوشی کرنا

وَقَوْلُهُ:‏‏‏‏ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى مَصْدَرٌ مِنْ نَاجَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَصَفَهُمْ بِهَا وَالْمَعْنَى:‏‏‏‏ يَتَنَاجَوْنَ"

(سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا) «وإذ هم نجوى‏» تو «نجوى‏» ، «ناجيت» کا مصدر ہے یعنی وہ لوگ سرگوشی کر رہے ہیں یہاں یہ ان لوگوں کی صفت واقع ہو رہا ہے۔

دیر تک سرگوشی کرنا

حد یث نمبر - 6292

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَرَجُلٌ يُنَاجِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا زَالَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَامَ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نماز کی تکبیر کہی گئی اور ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرتے رہے، پھر وہ دیر تک سرگوشی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے صحابہ سونے لگے اس کے بعد آپ اٹھے اور نماز پڑھائی۔

سوتے وقت گھر میں آگ نہ رہنے دی جائے ( نہ چراغ روشن کیا جائے )

حد یث نمبر - 6293

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو۔

سوتے وقت گھر میں آگ نہ رہنے دی جائے ( نہ چراغ روشن کیا جائے )

حد یث نمبر - 6294

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ احْتَرَقَ بَيْتٌ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ مِنَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَحُدِّثَ بِشَأْنِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ هَذِهِ النَّارَ إِنَّمَا هِيَ عَدُوٌّ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ".

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔

سوتے وقت گھر میں آگ نہ رہنے دی جائے ( نہ چراغ روشن کیا جائے )

حد یث نمبر - 6295

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَثِيرٍ هُوَ ابْنُ شِنْظِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "خَمِّرُوا الْآنِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتِ الْفَتِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے کثیر بن شنطیر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سوتے وقت) برتن ڈھک لیا کرو ورنہ دروازے بند کر لیا کرو اور چراغ بجھا لیا کرو کیونکہ یہ چوہا بعض اوقات چراغ کی بتی کھینچ لیتا ہے اور گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔

رات کے وقت دروازے بند کرنا

حد یث نمبر - 6296

حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ أَبِي عَبَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ بِاللَّيْلِ إِذَا رَقَدْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَغَلِّقُوا الْأَبْوَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَوْكُوا الْأَسْقِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ هَمَّامٌ:‏‏‏‏ وَأَحْسِبُهُ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَوْ بِعُودٍ يَعْرُضُهُ.

ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رات میں سونے لگو تو چراغ بجھا دیا کرو اور دروازے بند کر لیا کرو اور مشکیزوں کا منہ باندھ دیا کرو اور کھانے پینے کی چیزیں ڈھک دیا کرو۔ حماد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ایک لکڑی سے ہی ہو۔

بوڑھا ہونے پر ختنہ کرنا اور بغل کے بال نوچنا

حد یث نمبر - 6297

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْفِطْرَةُ خَمْسٌ:‏‏‏‏ الْخِتَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَالِاسْتِحْدَادُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَتْفُ الْإِبْطِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَصُّ الشَّارِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ".

ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال بنانا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا۔

بوڑھا ہونے پر ختنہ کرنا اور بغل کے بال نوچنا

حد یث نمبر - 6298

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَ ثَمَانِينَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَتَنَ بِالْقَدُومِ مُخَفَّفَةً"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاقُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بِالْقَدُّومِ وَهُوَ مَوْضِعٌ مُشَدَّدٌ.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے اسی(80) سال کی عمر میں ختنہ کرایا اور آپ نے «قدوم‏"‏‏.‏» (تخفیف کے ساتھ) (کلہاڑی) سے ختنہ کیا۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ نے بیان کیا اور ان سے ابوالزناد نے «بالقدوم‏‏.‏» (تشدید کے ساتھ بیان کیا)۔

بوڑھا ہونے پر ختنہ کرنا اور بغل کے بال نوچنا

حد یث نمبر - 6299

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِثْلُ مَنْ أَنْتَ حِينَ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا يَوْمَئِذٍ مَخْتُونٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانُوا لَا يَخْتِنُونَ الرَّجُلَ حَتَّى يُدْرِكَ".

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عباد بن موسیٰ نے خبر دی، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے سعید بن جبیر نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر کیا تھی؟ کہا کہ ان دنوں میرا ختنہ ہو چکا تھا اور عرب لوگوں کی عادت تھی جب تک لڑکا جوانی کے قریب نہ ہوتا اس کا ختنہ نہ کرتے تھے۔

بوڑھا ہونے پر ختنہ کرنا اور بغل کے بال نوچنا

حد یث نمبر - 6300

وَقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ :‏‏‏‏ "قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا خَتِينٌ".

اور عبداللہ ابن ادریس بن یزید نے اپنے والد سے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرا ختنہ ہو چکا تھا۔

آدمی جس کام میں مصروف ہو کر اللہ کی عبادت سے غافل ہو جائے وہ «لهو» میں داخل اور باطل ہے

وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ وَقَوْلُهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سورة لقمان آية 6"

اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں اس کا کیا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله‏» بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ سے بہکا دینے کے لیے کھیل کود کی باتیں بول لیتے ہیں۔

آدمی جس کام میں مصروف ہو کر اللہ کی عبادت سے غافل ہو جائے وہ «لهو» میں داخل اور باطل ہے

حد یث نمبر - 6301

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ فِي حَلِفِهِ:‏‏‏‏ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ:‏‏‏‏ تَعَالَ أُقَامِرْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَصَدَّقْ".

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم، تو پھر وہ «لا إله إلا الله» کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کر دینا چاہئے۔

عمارت بنانا کیسا ہے

قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ:‏‏‏‏ إِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مویشی چرانے والے لوگ کوٹھیوں میں اکڑنے لگیں گے یعنی بلند کوٹھیاں بنوا کر فخر کرنے لگیں گے۔

عمارت بنانا کیسا ہے

حد یث نمبر - 6302

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُنِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَيْتُ بِيَدِي بَيْتًا يُكِنُّنِي مِنَ الْمَطَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُظِلُّنِي مِنَ الشَّمْسِ مَا أَعَانَنِي عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا وہ سعید کے بیٹے ہیں، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تاکہ بارش سے حفاظت رہے اور دھوپ سے سایہ حاصل ہو اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے لائق گھر بنانا درست ہے۔

عمارت بنانا کیسا ہے

حد یث نمبر - 6303

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُمَرَ :‏‏‏‏ "وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُ لَبِنَةً عَلَى لَبِنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا غَرَسْتُ نَخْلَةً مُنْذُ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ فَذَكَرْتُهُ لِبَعْضِ أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ بَنَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهُ قَالَ قَبْلَ أَنْ يَبْنِيَ.

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوسفیان ثوری نے، ان سے عمرو بن نشار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نہ میں نے کوئی اینٹ کسی اینٹ پر رکھی اور نہ کوئی باغ لگایا۔ سفیان نے بیان کیا کہ جب میں نے اس کا ذکر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بعض گھرانوں کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم انہوں نے گھر بنایا تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا پھر یہ بات ابن عمر رضی اللہ عنہما نے گھر بنانے سے پہلے کہی ہو گی۔